Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط3


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر3

صفا کی حالت اب کافی بہتر تھی۔ ڈاکٹر نے چند دنوں تک ڈسچارج کرنے کو کہا تھا۔ 
دوسری طرف ماریہ اور ضیاء اپنے کام پے لگے ھوے تھے۔
 ماریہ نے شک کی وجہ سے آسیہ پے نذر رکھی ہوئی تھی اور اسکی جن کے ساتھ سلام دعا تھی ان پر بھی۔ 
اس دن چھٹی ہوئی ماریہ انتظار کرتی رہی فون کیا تو ڈرائیور نے کہا میڈم ٹائر پنکچر ہو گیا ہے دس منت ویت کر لیں ۔
اوکے کہ کر ماریہ یونی گھومنے لگی پیاس لگ رہی ہے پانی پیٹی ہوں جیسے روم میں اینٹر ہونے لگی کچھ آوازیں سنی اس نے۔
 آہستہ چلتی ہوئی ڈور کے پیچھے سے دیکھتی ہے یہ کیا دو لڑکے اور ایک لڑکی تھے وہاں ان کے ساتھ دو لڑکیاں بیہوش پڑی تھیں۔ 
اسلم یار رضوان کو فون لگا جلدی آہیں گاڑھی لے کر۔ 
یار آج تو دو ہاتھ لگ گیں اب باقیوں کو بھی جلد پکڑنا ہے کیوں کے دن کم ہیں مال کی سپلائی میں۔ان میں سے ایک بول رہا تھا۔ 
 مسلہ نا بن جائے سب نے خیال سے کام کرنا ہے جو پکڑا گیا نہ وہ  خلاص۔ سمجھے۔ اسلم باقی ساتھیوں کو نصیحت کر رہا تھا۔
 ماریہ کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے ۔مجہے ابھی ضیاء کو خبر دینی ہوگی۔ باہر دوڑھتی ہے۔ 
ہاں ہیلو ضیاء جلدی سے آجاؤ ادھر یونی کی بیک سائیڈ پے۔ 
کہاں ہو۔ یہ اچھا موقع ہے۔ 
دوسری طرف سے ضیاء نے سوچا  مجہے ان  کے ٹھکانے کا بھی تو پتا لگانا ہے۔
 سنو ماریہ میں آ رہا ہوں ہم نے انکا پیچھا کرنا ہے ان کے ٹھکانے تک پوھنچنے کے لئے۔ 
ابھی ہمیں ان  پر ہاتھ نہیں ڈالنا اوکے۔  
ماریہ کی گاڑھی آ گئی ۔ 
ضیاء نے ماریہ سے کہا تم گھر جاؤ تمہیں مسلہ بننے گا۔
 پر تم اس وقت اکیلے ہو۔ کوئی مسلہ نہیں۔ وہ نہیں جانا چاہتی تھی پر ضیاء نے اسکو بھیج دیا۔
 اب وه خود پوری طرح تیار تھا۔ 
صفا کی حالت بھی تو انہی کی وجہ سے ایسی ہوئی تھی ماریہ دعا کر رہی تھی کے ضیاء کامیاب ہو جائے ۔
ہیلو صفدر مجہے واچ کرو۔ضیاء نے فون پے کہا۔ 
جنگل کے درمیان کھنڈر کی طرح پرانی سی کوئی حویلی تھی۔ 
وہاں پوھنچ کر وہ مال اتارنے لگے ۔
ضیاء نے اپنے ساتھیوں کو ریڈ کا کہا۔
 اچھی خاصی راہداریاں بنی ہویی تھیں جو شاید انکی حفاظت کا ذریعہ تھیں۔
 ضیاء نے تو فورا حملہ کیا اس سے پہلے کے وہ کچھ سوچتے کرتے ۔
جا کے آ لیا انکو۔
 اصل سرغنہ کا ھی تو پتا لگانا تھا انکو سو اسلم رضوان سب انکی حراست میں تھے اب اور پوچھ گچھ جاری تھی۔ ضیاء انکو اپنے ساتھیوں کے حوالے کرتا واپس آ گیا۔ ابھی تو بہت کچھ رہتا تھا۔ امی میں ٹھیک ہوں اب۔ لیٹ کے تھک گئی ہوں۔
 صفا تنگ نہ کرو بچے اور یہ سوپ پیو۔اسکی امی نے ڈانٹا۔ 
 سلام ۔۔۔۔
ماریہ جیسے یونی میں اینٹر ہوئی گئی فورا ضیاء کے پاس۔ اسکو سارا کارنامہ سننا جو تھا۔
 ضیاء نے تھوڑی بہت تفصیل بتائی۔
 آج مجہے بریک ٹائم جانا ہے۔ماریہ نے ضیاء کو کہا۔ کیوں؟ ضیاء نے پوچھا۔ 
اب ان دونوں کے درمیان تھوڑی بہت دوستی ہو گئی تھی۔ ہاں وہ صفا کا حال پوچھنا ہے می نے ۔ ضیاء کی آنکھوں میں پھر اسکا چہرہ لہرایا۔
 اوکے کہ کر  ماریہ جانے لگی تو پیچھے سے آواز دی سنو میری طرف سے بھی پوچھ لینا۔ یہ سن کر ماریہ کو حیرت تو ہوئی۔ اچھا پوچھ لوں گی۔
ہاۓ۔۔۔۔ میری پیاری دوست کیسی ہے؟
 کیسا ہونا ہے دیکھ لو۔ ہلنے کی بھی اجازت نہیں صفا منہ بسور کر کہتی ہے۔ یار تھک گئی ہوں اب۔ اچھا چل کل سے یونی جایں گے۔ماریہ نے اسکا دل رکھا۔ 
 سچ؟  صفا خوش ہو گئی۔ 
میں آنٹی سے بات کروں گی۔
 تھنکس ماریہ۔صفا خوش ہوئی۔ 
 اگلے دن صفا یونی گئی۔ سب نے حال پوچھا۔ 
دونوں بیٹھی تھیں کہ ضیاء ان کے پاس آیا۔
 سلام۔۔۔ صفا نے سر جھکا کے سلام کا جواب دیا۔ 
 ضیاء نے بہت دن بعد دیکھا تھا اسکی نظر نہیں ہٹ رہی تھی صفا کے چہرہ سے۔ اور صفا اسکی نظروں کی تپش سے خجل ہو رہی تھی۔
 میری دوست کو نظر لگانے کا ارادہ تو نہیں۔ ماریہ نے اشارے سے عزت افزائی کی۔ 
ضیاء کو شرمندگی ہوئی کے یہ مجھ سے کیا ہو رہا تھا۔
 پھر پورا دن آس پاس سے چوکنا رہنے کے علاوہ اسکی نظر صفا پر ھی رہی جو شرمندہ صفا محسوس کرتی رہی اسکا دیکھنا ۔ صفدر نے انسے اگلوا لیا تھا سب۔
 یہ سب رمیجھا کرتا ہے۔وہ بھی آلہ کار ہے بس پر یہ جگہ اسکا علاقہ میں شامل ہے ۔
جو حصہ انکا ہوتا ہے وہ جاگیر ہوتی ہے جہاں سب کچھ وہ کر سکتے ہیں۔ 
رمیجھا کو اوپر سے ھی آرڈر ملتے ہیں جن پر وہ کام کرواتا ہے اپنے آدمیوں سے یا مجبور اور  لالچی لوگوں سے ۔
اب اگے کیا پلان ہے ضیاء؟اس کے دوست نے پوچھا۔
  رسوخ والا ہے وہ۔ ہر جگہ اس کے کارندے اس کے لئے کام کرتے ہیں۔ 
خود وہ اہم موقع پر سامنے آتا ہے جب بات اس کے کارندوں کے بس کی نہ رہے تب۔
 اسکا مطلب اسکو بل سے باہر نکالنا ہے ضیاء سوچ کر بولا۔
 کل سارا پلان ڈسکس کریں گے۔ یہاں تیار رہنا۔ یونی میں پرانے سٹوڈنٹس کے لئے تقریب منعقد ہو رہی تھی۔
 تفریح اور اعزاز کے لئے كمپٹیشن ہونے تھے۔ سب سٹوڈنٹس تیاریوں میں بزی ہو گئے۔
صفا اور ماریہ کو تو یہی ٹینشن کھاے جا رہی تھی کہ کیا پہنیں گی۔ 
ضیاء نے انکو کہا کہ بیوٹی مقابلہ تو نہیں ہو رہا اور نہ فیشن شو پر ان کے کانوں نے سنا ھی نہیں۔ 
صفا نے گولڈن ریڈ مکس فراک ساتھ جیولری اور ماریہ نے میرون کومبینیشن سوٹ خریدا ساتھ دوسرا سامان۔
 یہ مسلہ تو حل ہوا اب اگے مسلہ تھا کچھ کرنے کا۔وہ ٹائم اے گا تو دیکھا جاۓ گا۔انہوں نے سوچا۔  
ضیاء آج سکیسر سے ان کے مال کی سپلائی کی خبر ملی ہے۔ ان کے کچھ بندے ضیاء کی ٹیم  نے ساتھ ملا لئے تھے وہ پل پل کی رپورٹ دے رہے تھے۔
 اوکے جتنا نقصان انہوں نے کرنا تھا کر لیا اب اور نہیں۔
ٹائم پوچھ کر ضیاء کال کاٹ دیتا ہے۔رات کا  ٹائم تھا کشتیاں رکیں اور  8۔ 10 بندے سامان اتارنے لگے۔ 
اندر کا پتہ کروایا یار صفدر تم نے؟ضیاء بولا۔ 
  ہاں بس دو ہیں ۔
ٹھیک ہے اندر جاتے ہیں تو اگلا کام ہمارا۔
 پر یار یہ جو سامان لاۓ انکو نہیں پکڑنا کیا۔  
نہیں ابھی وقت نہیں آیا۔ 
یوں آج بھی ضیاء بازی پلٹ گیا تھا انکو چنے چبوا کے۔ 
 دیکھتے دیکھتے پارٹی کا وقت بھی ان پھنچا۔
 صفا اور ماریہ آہیں۔
 ضیاء کسی سے باتیں کرتے آ رہا تھا کہ سامنے صفا پے نظر پڑی اور پلٹنا بھول گئی۔
 ضیاء کو ایسے لگ رہا تھا وہاں صفا سے سندر اور کوئی ہے ھی نہیں۔
کیا ہوا یار ساتھی بولا۔ 
 نہیں پھر سر جھٹکا کچھ نہیں آ چلتے ہیں۔
 شو شروع ہوا ضیاء کی آنکھیں تو بس اسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
 تقریر کی ہیڈ نے پھر وہ چلے گئے اس کے بعد شاعری ہوئی گیمز ہویں آخر میں ڈانس کی باری آئ ۔
ماریہ نہ نہ کرتی صفا کو گھسیٹ کر شو میں لے گئی۔ صفا پریشان تھی کہ اسکو ڈانس آتی نہیں اب کیا کرے۔
 ہوٹنگ کرتے بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں پہنچ گئے وہاں۔ کپل ڈانس شروع ہو گیا۔ ماریہ نے تو تنہا شروع کر دیا صفا چپ کھڑی رہی سب کے درمیاں۔ 
اتنے میں ایک لڑکے نے صفا کو آفر کی چپ کر کہ کیا نہ کرتی کہ  مصداق ہاں کر دی۔
 اس لڑکے کو صفا نے بتایا کہ مجہے نہیں آتی کیری ان کہتے وہ صفا کو سٹیپ وائز کروانے لگا۔ 
ضیاء کی نظر پڑی تو اسنے ضبط سے مٹھی بھینچ لی۔ 
پاؤں کے ساتھ سٹیپ لیتے لیتے صفا کو گھمایا پھر اس کی کمر پر ہاتھ رکھ دئے ۔
صفا اس کے بازو ہٹا رہی تھی۔ ماریہ کسی کے ساتھ ڈانس میں مصروف تھی وہ  صفا کو  بھول ھی گئی ایک ضیاء ھی تھا جس کی نظر صفا پر تھی۔
 صفا کا دوپٹہ کندھے سے ڈھلک کر بازو پی آ چکا تھا۔ اب لڑکے نے مد ہوش ہو کر صفا کے بالوں میں جھکنا شروع کر دیا۔
 اب تو ضیاء کے حواس جواب دے گئے اور اس کے قدم صفا کی طرف بڑھنے لگے

   1
0 Comments